سر جھکائے بین کرتی قیدیوں میں بے ردا سہمی کھڑی کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
پوچھتے ہیں یہ تمشائی بھرے دربار میں بیمار سے کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
جن لائے محملوں میں کربلا اس شان سے
ناز کرتی تھی جو چلتی سائے میں عباس کے
کربلا میں سب لٹا کر عالمِ غربت میں ہے روتی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
یوں رسن میں قید تھا ہائے سکینہ کا گلا
کھینچ لے ظالم تو گرتی خاک پر وہ بارہا
دیکھ کر یہ حال بچی کو کوئی سنبھالتی روتی رہی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نیہں
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
جن کو سورج نے نہیں دیکھا تھا بے مقنع کبھی
آگئی بازار کیسے گھر سے جو نکلی نہیں
ایک چادر کی سوالی کربلا سے شام تک جو بن گئی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
جس گھڑی فضہ پکاری بے کوئی دربار میں
آگئے حامی بچانے جتنے تھے اغیار میں
دیکھ کر منظر پہ زینب رو پڑی عباس کو آواز دی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
مجلسِ میخوار میں جب بے ردا لائی گئی
سرجھکا کر رو رہی بے فاطمہ کی لاڈلی
ملکہِ شرم و حیا کی شان کیا تھی اور کہاں لائی گئی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
کون ہے یہ لوگ کہاں سے آگئے قیدی یہاں
مرد کیا کوئی نہیں ہے اِن میں ہے ساری بیبیاں
ایک ضعیفہ بھی ہے اِن میں جو کہ کسی بیمار کو تھامے کھڑی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
جس گھڑی زنداں میں ہندہ آگئی تھی دیکھنے
بے کسوں کا حال پوچھنے وہ بھی غز و شان سے
پوچھتی تھی ایک بی بی سے بتا ہے کون اور کیوں آگئی
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں
کیا یہی وہ قافلہ سالار زینب تو نہیں

0 Comments